تناول کے وسائل تناول پر کیوں استعمال نہیں ھورھے
تناول کے وسائل تناول پر کیوں استعمال نہیں ھورھے کیاتناول کوضلعے کادرجہ دیکر تناول کی محرومیاں اور پسماندگی کاخاتمہ ھو سکیں تناول کی 10یوسیز کاخوبصورت گلدستہ تاریخی پس منظر میں ریاست پھلڑہ جو اب تحصیل تناول بن چکی ھے اس میں بڑے پیمانے پر مائینگ کاکام جاری ھےجبکہ ضلع مانسہرہ میں تناول جس میں یو سی پھلڑہ, پڑھنہ ساون میرا لساں نواب ;شیرگڑھ بانڈی شنگلی دررہ شنائیہ کروڑی نکاپانی اوردربند کی یوسیز میں سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن گرینائیٹ وائٹ سٹون کے ٹرک جارھےھیں جنکا مقامی سطح پرکوئی فائدہ دیکھائی نہیں دےرہابلکہ علاقہ کی پسماندگی کاباعث اسطرح بن رھےھیں کہ پانی کے چشمےتباھوگئےہرے بھرے جنگلات کاحسن خراب ھو گیاغریب لوگوں کی زمینے بنجربنتی جارھی ھیں سڑکیں جو منتخب سیاسی قیادت نےبڑی مشکل سے چھوٹےگاڑیوں کے استعمال کےلئے بڑی ھی محنت سے تعمیرکروائی وہ اب کھنڈرات کامنظرپیش کررھی ھیں بڑے افسوس کی بات ھےکہ اس مائینگ سے یہاں کےغریب اور پسماندہ عوام کوکوئی فائدہ میسرنہیں ھورہا تناول کی تاریخ کچھ اس طرح سےھےکہ پاکستان بننے سے قبل یہاں پرنوابی دور مسلط تھا یہاں کےعوام کوغلامی میں زندگی گزارنےکی اجازت تھی یہاں کےحکمران نوابوں کی مرضی کے بغیر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکتا تھے یہاں تعلیم کے حصول پر. پابندی تھی یہاں کے عوام ان ھی نوابوں کی بگاریں اٹھا کراپنا وقت گزارتےتھے یہ علاقہ دو ریاستوں پر مشتعمل تھا ایک ریاست امب دربند اور دوسری ریاست پھلڑہ جن پر تناول کےجمال قبیلےکے حکمران نواب تھے انکی اپنی آذاد فوج تھی اور اپنا ھی عدالتی نظام ھوتاتھا اور تناول میں بسنے والہ ہر فرد انکے قائم کردہ قانون کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا پابند ھوتاتھا پاکستان بننے کے بعد جس طرح ملک میں قائم دوسری ریاستوں کے نوابوں نےاپنی ریاستوں کو مشروت طور پر پاکستان میں شامل کیا اور اپنی قوم اور عوام کےلئےزندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرنے کےلئے معاہدےکرکے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اس ھی طرح یہ دوریاستیں بھی پاکستان میں غیرمشروت طور پر پاکستان شامل ھو گئی فیلڈمارشل ایوب کے دورحکومت میں ریاست امب دربند تربیلاڈیم کی تعمیری کی وجہ سے ڈوب گئی اورحکومت سطح پریہاں کے عوام کودوسرے اضلاع میں منتقل کیاگیا اسطرح ریاست امب دربندکا دارالحکومت شیرگڑھ منتقل ھوگیا جبکہ ریاست پھلڑہ موجود رھی جو اب بھی غیر فعال طرح موجودھے ملک کی دیگر ریاستیں مشروت معاہدوں کی وجہ سےزندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل کرکے خوب لطف اندوزھورھی ھیں جسطرح والیئے سوات نےاس وقت کے تحریر کردہ معاہدوں کی روشنی میں اپنی ریاست کو تعلیمی ترقی میں خودکفیل بنانے کےعلاوہ زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل کی وہاں پر اپنی ریاست کو آئندہ سو سال تک ٹیکس فری زون بھی ڈیکلئر کروایاسوات کو تحصیلوں اور ضلع کےدرجے دلوائی جو اس ریاست کی ترقی کی بنیاد بنے لیکن افسوس کےیہاں پراس کے الٹ ھوا جبکہ ریاست سوات سے زیادہ ان دونوں ریاستوں میں قدرتی حسن خوبصورت جنگلات آبشاریں اوروسیع پیمانےر زرخیز زمینے موجود تھے سب سے بڑھ کر ریاست امب دربندکے تربیلا ڈیم کی زد سے بچنےوالےعلاقہ کے علاوہ ریاست پھلڑہ میں معدنیات کے وسیع پیمانےپر زخائر موجودھیں لیکن ان سے استفادہ حاصل نہیں کیا گیا جسکی اصل وجہ تعلیمی پسماندگی ھے جونکہ یہاں کے نوابوں نے اپنی قوم کو تعلیم کےحصول میں پسماندہ رکھ کے اپنی نوابی قائم رکھی اور قوم کو اندھیروں کی دلدھل میں دھکیل دیا جوظلم عظیم تھاجس کاغمیازہ اب بھی یہ قوم بھکت رھےھیں ان ریاستوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں ملی اور نہ تحصیل وضلعےبنائےگئے جس کے پیچھے اپنے ھی حکمران طبقے کی تنگ نظری شامل تھی جسکے باعث یہ مارشل کاحطاب حاصل کرنے والی تنولی قوم کو آج ترقی اس جدیددور میں بھی پسماند گی کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم زندگی گزار نے پر مجبور ھے اور یہاں میسر قدرتی معدینات کے خزانوں پرآج بھی بااثر شخصیات مصلحت ھیں جنکا عام آدمی کوکوئی فائدہ نہیں ھورھا بلکہ یہ معد ینات کےزخائرعوام کےلئے نقصان کاباعث بن رھےھیں کیونکہ یہاں کےعام عوام اورغریب اورمتوسط طبقےکو وہ رسائی حاصل نہیں جوکہ کسی باشعور معاشرےمیں ایک پڑھے لکھیں عام انسان کو حاصل ھوتی ھے یہاں کے عوام کو ترقی کےدھارے میں لانےاور زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کروانے کےلئےپہلی فرصت میں تحصیل تناول پھلڑہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو جدید سہولیات کےساتھ فعال کرنےاوران دو ریاستوں پر امب دربند اور ریاست پھلڑہ جو اب تحصیل تناول بن چکی ھے پر مشتعمل ضلع تناول کاقیام عمل لایاجائے دوسرا یہاں نکلنے منریئل معدینات کے زرخیرے کودوسری جگہ منتقل کرنےکے بجائے یہاں پر ھی انڈسٹری لگائی جائےتاکہ اس قدرتی خزانے سےمقامی آبادی استفادہ حاصل کرے اوریہاں کےعوام کی محرومیاں بھی دور ھوسکیں اور اس مارشل قوم کے نوجوانوں کوروزگار بھی مل سکے اور دوسرا سب سےبڑافائدہ یہ ھوگا کہ یہاں کی سڑکیں بھی تباھونےسے بچ سکیں گے جو بڑی ھی مشکل سے تعمیر ھوئی ھے اور ان دو ریاستوں کے ساتھ کئی زیادتی کاازالہ ھوسکے اور یہاں کےعوام بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے مستفید ھو سکیں اور یہاد سے نکلنے والےمعدنیات کی آمدن اور رائلٹی سے اس علاقہ کے عوام کے ترقی کے ادھورے خوابوں کی تعبیر ممکن ھوسکے. تحریر
بی اے تنولی
