اُڈیانہ اور گندھارا کا خطہ جنوبی ایشیا کی قدیم تہذیبوں کا اہم مرکز رہا ہے جہاں مختلف اقوام، ثقافتوںاور مذاہب نے صدیوں تک اپنے قدم جمائے۔ یہ خطہ بدھ مت کے فروغ کا مرکز بھی رہا جس کی مذہبی،ثقافتی اور فنی اہمیت کا اندازہ ان کے کھنڈرات، عمارات اور مقامی داستانوں سے ہوتا ہے۔ یہاں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ زمینیں کبھی نہایت زرخیز اور ترقی یافتہ تہذیبوں کی آماجگاہ تھیں، جن کے اثرات آج بھی دُور دُور تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اُنیسویں صدی کے ایک معتبر برطانوی افسر اور محقق، میجر ہیرالڈ ڈین نے جنوبی ایشیا کے اُڈیانہ اور گندھارا کے قدیم مقامات کا جامع مطالعہ کیا۔ اُن کی تحریروں میں ان تاریخی مقامات کے رازوں کو بےنقاب کیا گیا، جنہوں نے اس خطے کی تہذیبوں اور ثقافتوں کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈین کی تحقیق آج کے محققین کے لیے نہایت قیمتی ہے، کیونکہ اس نے اْڈیانہ اور گندھارا کے قدیم ورثے کو اجاگر کیا اور ماضی کی تہذیبوں کی گہرائیوں کو نمایاں کیا۔
دریائے سوات کے کنارے واقع چکدرہ کے قریب سما اسٹوپا کی باقیات اُس زمانے کی نشانی ہیں جب بدھ مت کا اثر اس خطے میں بہت زیادہ تھا۔ قدیم عمارات اور مقامی روایات یہاں کی پرانی ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ایک مخصوص رسم تھی کہ لوگ فرضی مجرم کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے لیے پتھرپھینک کر شرکت کرتے تھے۔ اگرچہ یہ روایت آج ختم ہو چکی ہے، مگر اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس علاقے میں کبھی سماجی اور مذہبی رسومات گہرائی سے جڑی ہوئی تھیں۔
اُڈیانہ اور گندھارا کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے بڑے بڑے اسٹوپے، وھیڑے اور مندر اُس دور کے فن تعمیر کی بلند مثال ہیں۔ چٹانوں پر کی گئی پیچیدہ کندہ کاری اور مجسمے اس خطے کی ثقافتی ترقی اور مذہبی عقائد کی گہرائی کا ثبوت ہیں۔ یہ آثار اِس بات کا بھی اشارہ ہیں کہ یہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ بستے تھے جن کی مشترکہ ثقافتی سرگرمیاں علاقہ کو منفرد بناتی تھیں۔
مقامی زبان اور ثقافت میں سنسکرت کے اثرات خاص طور پر گجر قبیلے میں نمایاں ہیں، جو مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی اپنی قدیم ثقافتی جڑوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ قبیلہ کئی صدی پہلے اسلام قبول کرنے والا تھا، مگر اس کے باوجود ان کی زبان اور روایات میں قدیم ثقافتی رنگ نمایاں ہیں۔ ان گجر قبائل کی موجودگی اس خطے کی تاریخ میں تہذیبی اور مذہبی ہم آہنگی کی تصویر پیش کرتی ہے۔
اُڈیانہ کے جنوبی حصے میں پائی جانے والی قدیم قلعہ بندیاں اور دفاعی دیواریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کے لوگ محض امن پسند نہیں تھے بلکہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر ممکن حکمت عملی اپناتے تھے۔ یہ قلعے اس خطے کی دفاعی تاریخ اور اس کے باشندوں کی جنگی مہارتوں کا مظہر ہیں،جو اکثر حملہ آوروں کے خلاف ایک مضبوط دفاع فراہم کرتے رہے۔
سیدگئی جھیل، جو قدیم روایات میں ’’ڈریگن لیک‘‘ کے نام سے مشہور تھی، لوک کہانیوں اور روحانی عقائد کا اہم مرکز رہی ہے۔ یہاں کے مقامی باشندے جِنّات اور نیم انسانی مخلوقات کی کہانیاں سناتے ہیں جو قدیم عقیدے اور قدرتی مظاہر کو ایک مافوق الفطرت پہلو دیتے ہیں۔ ایسی داستانیں اس خطے کی ثقافت کی گہرائی اور پرانے عقائد کی یاد دلاتی ہیں جو اب بھی مقامی لوگوں کے درمیان زندہ ہیں۔
اُڈیانہ کی سماجی تاریخ میں ایک دل چسپ واقعہ ایک لڑکی کی داستانِ محبت بھی ہے، جو براہ قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ اُس کا دل ایک اخوندزادے کے لیے دھڑکتا تھا جس کا نام اخوند سالاک تھا۔ یہ رشتہ قبائلی اور مذہبی روایات کی پیچیدگیوں کا منظر پیش کرتا ہے اور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ذاتی جذبات اور سماجی حدود کے بیچ توازن کی جدوجہد ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔
دریائے سوات کے مختلف مقامات جیسے بالوگرام (Balogram)، اودیگرام (Odigram) اور پنچگرام (Panjigram) میں بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں جن میں عمارات، مجسمے اور تحریریں شامل تھیں۔یہ آثار اُس زمانے کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے آثار ختم یا نقصان کا شکار ہو چکے ہیں، مگر ان کی باقیات ہمیں اس خطے کی قدیم شان اور عظمت کا پتہ دیتی ہیں۔
اُڈیانہ اور گندھارا نہ صرف مذہبی لحاظ سے اہم تھے بلکہ دفاعی نقطہ نظر سے بھی یہ خطہ بہت طاقتور تھا۔ یہاں کی مضبوط قلعہ بندیاں اور دفاعی نظام بتاتے ہیں کہ اس خطے کے لوگ اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ یہ تمام تاریخی حقائق اُس دور کی پیچیدگیوں اور مختلف تہذیبوں کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ خطہ آج بھی تاریخ کے طالب علموں اور محققین کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے۔ یہاں کی قدیم تہذیبوں اور روایات کی کھوج سے نہ صرف ماضی کی شناخت ملتی ہے بلکہ یہ ہماری ثقافتی وراثت کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اُڈیانہ اور گندھارا کی تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی ماضی کی تہذیبوں کو سمجھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ اپنی ثقافت اور شناخت کو زندہ رکھا جا سکے۔