سیدناحسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا واقعۂ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، بلکہ پوری دُنیا کی تاریخ میں بھی اُس کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے، اس میں ایک طرف ظلم و جور اور سنگدلی اور محسن کشی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کو ان کا تصور بھی دشوار ہےاور دوسری طرف آل طہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے ستر بہترین متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ پر جہاد اور اس پر ثابت قدمی اور قربانی اورجاں نثاری کے ایسے مخیر العقول واقعات ہیں جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے اوران میں آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
جگر گوشہ رسول صلى الله علیه وسلم شباب اہل الجنة حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی درد ناک مظلومانہ شہادت پر تو زمین و آسمان روئے، جنات روئے جنگل کے جانور متاثر ہوئےانسان اور پھر مسلمان تو ایسا کون ہے جو اس کا درد محسوس نہ کرے۔ یا کسی زمانہ میں بھول پائے، لیکن شہید کر بلا رضی اللہ عنہ کی روح مقدس درد و غم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کے بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو ان کے درد کے شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں ، اُن کی خاموش مگر زنده جاوید زبان مبارک مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصد عظیم کی دعوت دیتی رہتی ہے جس کے لیے حضرت حسین بے چین ہو کر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے کے لیے مجبور تھے، اور جس کے لیے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت کو قربان کر کے خود قربان ہو گئے۔
واقعہ شہادت کو اوّل سے آخر تک دیکھئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھیے ، آپ کو معلوم ہوگا کہ مقصد یہ تھا۔
*کتاب وسنت کے قانون کو صحیح طور پر رواج دینا۔
*اسلام کے نظام عدل کو از سر نو قائم کرنا۔
*اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلہ میں مسلسل جہاد کرنا۔
*حق کے مقابلہ میں زُور و زَر کی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا۔
*حق کے لیے اپنی جان ،مال اور اولاد سب قربان کر دینا۔
*خوف وہراس اورمصیبت و مشقت میں نہ گھبرانااور ہر وقت اللہ تعالی کو یاد رکھنا اور اس پر تو کل اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا۔
کوئی ہے جو جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم کربلا شہید جوروجفا کی اس پکار کو سُنےاور ان کے مشن کواور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیارہو۔
ان کے اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد ٹھہرائے۔
لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ماتم کرنا ہی محبت حسین ہے۔ انکے خیال میں رُونے دھونے کی حدتک غم حسین منانا کار ثواب اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ اسکا جواب اچھی طرح سمجھ لیجیے۔
کسی پیارے کی وفات پر وقتی طور پر رُونا آجانا محبت اور رحم کے جذبے کا نتیجہ ہے اور یہ بالکل درست اور جائز ہے۔ یہی وہ رُونا ہے جس کی احادیث میں صاف اجازت موجود ہے خواہ فوت ہونے والا کوئی بھی ہو۔
لیکن ہر سال کے بعد رُونے رُلانے بیٹھ جانا ایک عجیب حرکت ہے۔ یہ کام نہ اپنوں کے حق میں جائز ہے اور نہ دوسروں کے حق میں اس دنیا میں ہر کسی کے بہن بھائی،ماں باپ، اولاداور رشتہ دار فوت ہوتے رہتے ہیں ، مرشد اور استاد فوت ہوتے رہتے ہیں ، ان سب کے لیے ایصال ثواب کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہتا ہے مگر سال کے سال رُونے کا دھندا نہیں کیا جاتا۔
واقعہ حرہ میں مدینہ منورہ میں سات سو صحابہ کرام اور دس ہزار تابعین علیہم الرضوان کو بے دردی سے شہید کیاگیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو رمضان شریف میں بھوکے پیاسے شہید کر دیا گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو چالیس دن تک ان کے گھر میں محصور کرکے اور ان کا پانی بند کر کے پیاس کی حالت میں شہید کر دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہوئے چھرے مار کر شہید کر دیا گیا۔ ظلم کی یہ داستانیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے موقع پر ہم سال کے سال نہ ماتم کرتے ہیں اور نہ رُوتے ہیں۔
سب کچھ چھوڑ ہیے۔
دنیا کا سب سے تاریک دن وہ تھا جس دن حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ اگر ہر سال غم منانا اور رُونارُلانا جائز ہوتا تو اللہ کی عظمت کی قسم بارہ ربیع الاول کو ہرسال اس دنیا میں کہرام برپا ہو جایا کرتا۔ اب ہم ہر سال میلاد مصطفی ﷺ کی خوشی تو ضرور مناتے ہیں مگر عین اسی دن حضور کریم ﷺ کا وصال شریف بھی ہوا تھا ہم اس کی وجہ سے نہ ماتم کرتے ہیں اور نہ ہی صرف روتے ہیں۔
اہل سنت پر سیدناحسین رضی اللہ عنہ سے عدم محبت کا الزام لگانے والے غور کریں کہ اہل سنت کی مصطفی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کو تو کوئی مائی کا لال چیلنج نہیں کر سکتا۔ آخر حضور کے وصال کے موقع پر اہل سنت کیوں نہیں روتے۔۔۔؟ یہاں سے بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ہر سال رُونے لگ جانا واقعی ایک نا معقول اور غیر شرعی حرکت ہے اور جو لوگ سُنی کہلانے کے باوجود ہر سال یہ دھندا کرتے ہیں انہیں روافض کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔
اللہ کے پیاروں کا طریقہ تو یہ ہے کہ پیاروں کی عین وفات کے دن بھی صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں اور آنسوؤں پر بھی کنٹرول رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہاں البتہ بے اختیار آنسو نکل آنا ایک الگ بات ہے۔
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ محبوب کریم ﷺ کو غسل دے رہے تھے اور فرمارہے تھے: یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،
آپکی وفات سے ہم نبوت ، غیب کی باتوں اور آسمان کی خبروں سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس مصیبت کے سامنے دوسری تمام مشکلات آسان نظر آ رہی ہیں اور ہر شخص اس غم میں برابر کا شریک ہے۔ اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور بے تابی سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم آپ پر رُو رُو کر اپنی آنکھوں کا سارا پانی ختم کر دیتے۔ آپ سے جدائی کا درد اور اندوہ ہمیشہ ہمارے سینے میں رہے گا۔ آپکے دُکھ کے سامنے کسی دوسرے دُکھ کی کوئی اوقات نہیں۔
*واقعہ کربلا سے ملنے والے اسباق*
1- سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین علیہم الرضوان کی مخالفت نہ کی اور یزید کی مخالفت کی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اہل حق کیساتھ تعاون کرنا چاہیے اور اہل باطل کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔
2 سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مشورہ لیا اور راستے میں اپنے ساتھیوں سے بھی مشورہ لیا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ اہم کام سر انجام دینے کے لیے مشورہ کر لینا چاہیے۔
3- سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کا مقابلہ کیا اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم نے رخصت پر عمل فرمایا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جتنا کسی کا رُتبہ بڑا ہو اتنی ہی اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
4- سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا حرمین شریفین میں جنگ کرنے کی بجائے کوفہ چلے جانا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حرمین شریفین کی بے ادبی سخت منع ہے۔
5۔ آپ نے مختلف تجویزیں پیش فرما کر جنگ کو ٹالنے کی کوشش فرمائی۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ سے گریز کرنا چاہیے اور پہل ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔
6- سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں نہایت صبر وتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ اپنے پیاروں کو شہید ہوتا دیکھ کر بھی ماتم اور نوحہ نہیں کیا۔ حتی کہ اہل بیت کی خواتین علیہم الرضوان نے بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اللہ کریم کی طرف سے آنے والے امتحانوں پر صبر کرنا چاہیے اور کسی قسم کا واویلا یا ماتم نہیں کرنا چاہیے۔ جو کامل ہوتے ہیں وہ رضا پر راضی رہتے ہیں۔
7- سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رات کو ذکر و عبادت میں مصروف رہے اور عین میدانِ جنگ میں بھی نماز کو یاد رکھا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکل وقت میں اللہ کریم جل مجدہ کو کثرت سے یاد کرنا چاہیے اور ہر حال میں نماز کی پابندی کرنی چاہیے۔
یا اللہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ اجمعین کی محبت کاملہ اور اتباع کامل نصیب فرما۔
آمین