ظریف خان کاتعلق ہماری آبائی یونین کونسل بٹہ موڑی سے ہے۔یہ پی ٹی آئی کے پروانے اورعمران خان کے دیوانے ہونے کے باوجودہم سے انتہاء کی محبت اورعقیدت رکھتے ہیں حالانکہ تبدیلی والے اکثرپروانے اوردیوانے آج بھی ہمیں دیکھتے ہی غصے سے سرخ مرچ کی طرح ایسے لال پیلے ہوجاتے ہیں کہ جیسے ان کے کپتان کواپنے اوران اناڑیوں کے مشترکہ اعمال نے نہیں ہمارے کالمز نے اڈیالہ تک پہنچایاہو۔خیر۔ظریف خان کوجتنی محبت اورعقیدت ہم سے ہے اس سے زیادہ پیاراورمحبت ہم بھی اپنے دل میں ان کے لئے رکھتے ہیں۔یہ روزگارکے سلسلے میں اکثرملک سے باہرہوتے ہیں۔پچھلے ہفتے اس کی گیارہ بارہ سال کی پھول جیسی بچی سماء گل اچانک اس دنیاسے رخصت ہوئیں۔اس بچی کے ساتھ انہوں نے ہسپتالوں کے بہت چکرکاٹے،سماء گل کینسرکے عارضے میں مبتلاتھیں اوردوسال پہلے ہم بھی ان کی عیادت کے لئے بٹہ موڑی میں ان کے گھرگئے تھے۔یہ بچی کئی سالوں سے بیمارتھیں۔ظریف خان نے راولپنڈی کے ایک ہسپتال سے اس کامسلسل علاج کرایا۔یہ خود سعودی عرب کی ایک کمپنی میں جاب کررہے ہیں لیکن بچی کی بیماری کے دوران وہ اکثرہسپتال میں اس کے ساتھ رہے۔بچی کے علاج کے لئے ڈاکٹروں نے جوکہااس نے وہ کیا۔سماء گل کی جان بچانے کے لئے ڈاکٹراگرظریف خان سے یہ کہتے کہ آسمان سے تارے توڑکے لائوتویہ وہ بھی لاتے۔بھاری اخراجات پرکئی سال تک پابندی سے علاج کرانے کی وجہ سے مارچ میں ڈاکٹروں نے سماء گل کومکمل فٹ اورصحتیاب قراردیتے ہوئے اس کی فائل کلوزکردی۔سماء گل پانچ چھ مہینے تک ٹھیک رہی اوراس دوران وہ باقاعدگی سے سکول بھی جاتی رہی۔اس کودیکھ کریہی لگ رہاتھاکہ اس کی زندگی واپس لوٹ آئی ہے لیکن کسی کویہ پتہ نہیں تھاکہ ستمبراس کے خاندان کے لئے کیساستمگرثابت ہوگا۔؟راولپنڈی کے جس ہسپتال سے سماء گل کاعلاج کرایاگیاتھاپچھلے مہینے ستمبرمیںمعمول کے چیک اپ کے لئے جب اسے وہاں لے جایاگیاتواس وقت ماں باپ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی جب رپورٹس میں یہ انکشاف ہواکہ موذی مرض نے اس پھول پرنہ صرف پھرسے حملہ کردیاہے بلکہ اس اس بارحملہ اس شدت سے کیاہے کہ دماغ اوربون میرواس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ظریف خان جواس وقت ملک سے باہرتھے اطلاع ملتے ہی وہ فورابچی کے پاس پہنچ آئے۔سماء گل پھرکئی دن تک ہسپتال میں زیرعلاج رہیں۔بدقسمت باپ اس کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے آخرتک اس کے ساتھ رہے لیکن مسلسل دواؤں اوردعاؤں کے باوجودوہ جانبرنہ ہوسکیں۔سماء گل کاوہ معصوم چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے کی وجہ سے ہمیں پہلے دن جنازے کوکندھادینے اورظریف خان کاسامناکرنے کی ہمت نہ رہی۔ اس لئے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔دو دن پہلے بٹہ موڑی میں واقع ان کے غم خانے پہنچے توسماء گل کی یادمیں ظریف خان کی سرخ وسوجھی ہوئی آنکھیں اوروجودسے غم کے رستے ہوئے زخم دیکھ کردل پارہ پارہ ہوا۔اولادکاغم اللہ کسی دشمن کوبھی نہ دکھائے۔سماء گل کی یادوں میں گم سم ظریف خان نے آنسوؤں کوپونچھتے ہوئے کہا۔جوزوی بھائی۔ اللہ کی رضااورفیصلے پرہم راضی ہیں۔سماء گل کی اچانک جدائی نے ہمیں بتادیاہے کہ موت اٹل اوربرحق ہے۔اس سے بچنے کاکوئی راستہ،کوئی وسیلہ اوراس کاکوئی علاج نہیں۔سماء گل کاعلاج توہم نے کیالیکن موت کاعلاج ہم نہیں کرسکے کیونکہ یہ کسی کے بس اوروس میں نہیں۔سماء گل کی اچانک جدائی نے توظریف خان کے ناتواں کندھوں پرغم کاپہاڑلاددیاہے لیکن ساتھ ہسپتال میں علاج کے دوران ڈاکٹروں نے اپنے رویے سے اس کوجوزخم دیئے ہیں ان سے بھی ابھی تک خون رس رہاہے۔ڈاکٹروں کے ناروارویے کاجب اس نے ذکرکیاتونہ صرف اس کی آوازبھرآئی بلکہ آنکھیں بھی بارش کی طرح برسنے لگیں۔وہ کہہ رہے تھے سماء گل کے سامنے جب ڈاکٹرہمیں کہتے کہ یہ زندہ نہیں بچ سکتی یاچنددنوں کی مہمان ہے تواس وقت ایسالگتاکہ جیسے آسمان کسی نے ہم پرگرادیاہو۔آہوں اورسسکیوں میں وہ کہتے جارہے تھے کہ نہ جانے ڈاکٹروں کی ان باتوں کے وقت سماء گل کے دل پرکیاگزری ہوگی کیونکہ وہ آخرتک ہوش وحواس میں سب باتیں سنتی اورسمجھتی تھیں۔ڈاکٹرمسیحاہیں ان کی مسیحائی کاہمیں انکارنہیں لیکن مسیحاؤں کوبھی اپنی مسیحائی کاخیال رکھناچاہیئے۔ماناکہ بیماری کی تشخیص اورمریض کے لواحقین کواس بیماری سے متعلق تفصیلی طورپرآگاہ کرناڈاکٹروں کی ذمہ داری ہوگی لیکن یہ کوئی طریقہ،کوئی خدمت اورکوئی مسیحائی نہیں کہ ڈاکٹرمریض کے سامنے اس کی بیماری اوردنیاسے جانے کے اعلانات کرتے پھریں۔ڈاکٹروں کے ہاتھوںمیں شفاء ہے توان کی بے لگام زبانوں میں زہربھی ہے۔ ہم نے ایسے کئی مریض دیکھے ہیں جوڈاکٹروں کے ایسے غلط رویوں کی وجہ سے صحتیاب ہونے کے بجائے زیادہ بیمارہوئے۔جوکام پہلے گاؤں کے نئی کرتے تھے اب وہ کام ایسے ڈاکٹروں نے بھی شروع کردیئے ہیں۔اسی وجہ سے اب لوگوں کوڈاکٹروں کے پاس جانے سے ڈرلگتاہے۔لوگ ڈاکٹرزکے پاس زخم کی دواء لینے جاتے ہیں موت کاسرٹیفکیٹ لینے نہیں۔ یہ کونساطریقہ اورکہاں کی انسانیت ہے کہ زخم پرمرہم رکھنے کے بجائے ڈاکٹر ایسی بے محل اورفضول باتوں سے پہلے سے پریشان حال اوربیمارانسانوں کے زخموں پرنمک کاٹکورشروع کریں۔ہماری ایک چاچی کوبریسٹ کینسرہے،یہ بات ابھی تک ہم نے اس سے چھپائی ہوئی ہے ،ہم پچھلے چھ سات ماہ سے اس کاعلاج کروارہے ہیں ،جب بھی ہم کسی نئے ڈاکٹرکے پاس چیک اپ کے لئے جاتے ہیں تواس کوڈاکٹرکے پاس لے جانے سے پہلے خودڈاکٹرکے پاس جاکراللہ کاواسطہ دیتے ہیں کہ اس کے سامنے اس بیماری کاذکرنہ کریں۔آپ خودسوچیں ۔ایک بندے کوجب ڈائریکٹ یہ کہاجائے کہ آپ کوکینسر،یرقان یاآپ کچھ دنوں میں مرنے والے ہیں تویہ کہنے کے بعداس کی کیاحالت ہوگی۔؟وہ مرنے والانہ ہوآپ کی ان باتوں سے وہ ویسے ہی مرجائے گا۔اس لئے ڈاکٹروں کوخداکاواسطہ ہے کہ یہ لوگوں کاعلاج ضرورکریں لیکن لوگوں میں موت کے سرٹیفکیٹ نہ بانٹیں۔رب کے حکم سے جس نے مرناہووہ ڈاکٹرزکے کہنے کے بغیربھی مرتے ہیں ۔مرنے والوں کوایسی باتوں سے باربارمارناہمارے خیال میںیہ کوئی انسانیت نہیں۔