پاکستان میں سوشل میڈیا نے جس رفتار سے ہماری زندگیوں کو بدل دیا ہے، وہ اب سب کے سامنے ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سہولتیں بھی لائی لیکن اس کے بے قابو استعمال نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے لیے کوئی واضح حدود یا اصول موجود نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا بے مہار سلسلہ بن گیا ہے جس نے معاشرتی، اخلاقی، خاندانی اور تعلیمی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔سب سے پہلا نقصان خاندانی نظام پر ہوا ہے۔ اگر آپ کسی کمرے میں بیٹھے افراد کو دیکھیں تو ہر شخص اپنے موبائل میں مگن ہوتا ہے۔ والدین اور بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ دوستوں کی محفلیں جو کبھی قہقہوں سے بھری ہوتی تھیں، اب موبائل فون کی نذر ہو چکی ہیں۔ ایک دوسرے کی موجودگی میں بھی لوگ کسی اور دنیا میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ رویہ تعلقات کو کمزور کر رہا ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے۔تعلیم بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ حالیہ نائنتھ کلاس کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں۔ اس دفعہ رزلٹ مایوس کن رہا۔ اس میں جہاں تعلیمی پالیسیوں کی کمزوریاں ہیں، وہاں سوشل میڈیا کا اثر بھی بڑا ہے۔ بچے زیادہ وقت ٹک ٹاک اور ویڈیوز بنانے پر خرچ کرتے ہیں۔ ہوم ورک اور پڑھائی ان کے لیے اہم نہیں رہیں۔ لیکن روزانہ ویڈیوز بنانا ان کے معمولات کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ یہ روش مستقبل کی تعلیمی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔کھیلوں کے میدان بھی اسی وجہ سے ویران ہیں۔ نوجوان اب زیادہ تر وقت سکرین پر سکرولنگ کرتے ہیں۔ فزیکل ایکسرسائز ختم ہو رہی ہے۔ صحت مند سرگرمیوں کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔ یہ عادت جسمانی ہی نہیں، ذہنی صحت پر بھی برا اثر ڈال رہی ہے۔اب تو بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی نظر کی کمزوری عام ہوتی جا رہی ہے۔ زیادہ سکرین دیکھنے سے آنکھوں کی روشنی متاثر ہو رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک دوست کہہ رہا تھا کہ میں تو اپنے بچوں کو آئز اسپیشلسٹ بناؤں گا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولا کہ جس طرح آج کے بچے مسلسل موبائل استعمال کر رہے ہیں، آنے والے وقت میں چھوٹی عمر ہی سے عینک لگنے لگے گی اور آنکھوں کے امراض بڑھیں گے۔ ان کی بات میں حقیقت تھی، کیونکہ یہ رجحان اب کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ ہر دوسرے بچے کو عینک کی ضرورت پڑ رہی ہے۔دفاتر کا حال بھی مختلف نہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمین گھنٹوں موبائل پر مصروف رہتے ہیں۔ وقت ضائع ہوتا ہے اور کارکردگی گر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ، جھوٹی خبریں اور فحش مواد عام ہے۔ جھوٹی افواہیں لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر روزانہ ایسی خبریں چلتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ معاشرتی انتشار اور اخلاقی زوال کا سبب ہے۔یہاں ایک اور اہم پہلو ہے۔ حال ہی میں ایچ وی پی وائرس کے خلاف حکومت نے لاکھوں روپے کی آگاہی مہم چلائی، لیکن سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہوں نے اس مہم کو ناکام بنا دیا۔ یہ افواہیں لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہیں اور عوام کو درست معلومات سے دور کر دیتی ہیں۔یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ نے دنیا کو قریب کیا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا مثبت استعمال کم اور منفی زیادہ ہے۔ ہم نے اسے وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والی نسلیں اپنی اقدار، صحت اور تعلیم سے مزید دور ہو جائیں گی۔اب وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر سوچیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور فحش مواد کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ والدین کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ تعلیمی ادارے آگاہی پروگرام شروع کریں تاکہ نوجوان اس ٹیکنالوجی کو تعمیری انداز میں استعمال کریں۔سوشل میڈیا کو قابو میں لانا ناممکن نہیں۔ اگر ہم سب اس کے استعمال کو حدود میں رکھیں تو یہ ایک مفید ذریعہ ہے۔ لیکن اگر اسے یوں ہی آزاد چھوڑ دیا گیا تو یہ آنے والے وقت میں اور بڑے مسائل کھڑے کرے گا۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو موبائل کے اسیر بنائیں یا ایک صحت مند اور متوازن معاشرہ دیں۔