The news is by your side.

قومی ترانہ: اُردو، فارسی یا خالص دیسی جگاڑ؟

تحریر: نجیم شاہ

0

پہلے تو ہمیں یہی سمجھ نہیں آتا کہ ہم زیادہ کنفیوژہیں یا ہمارا قومی ترانہ۔ ترانہ تو وہی ہے جو 1954ء سے خاموشی سے بج رہا ہے، لیکن ہم ہر چند سال بعد اس پر نئی نئی تحقیقیں، اعتراضات اور لسانی فتوے جاری کر دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں یہ فارسی ہے، کبھی اُردو، اور کچھ تو شاید مستقبل میں اسے ’’چینی اُردو‘‘ قرار دے دیں اگر ترانے میں ’’چائے‘‘ یا ’’خوشبو‘‘ جیسے الفاظ کی بھرمار ہو جائے۔

اب تازہ ترین تحقیق سامنے آئی ہے جناب عابد علی بیگ صاحب کی طرف سے، جنہوں نے قومی ترانے کے چالیس الفاظ کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ ان میں چوبیس الفاظ عربی، پندرہ فارسی اور ایک سنسکرت سے ماخوذ ہیں۔ اب یہ سنسکرت والا لفظ کہاں چھپا ہوا ہے، یہ تلاش کا کام ماہرین لسانیات پر چھوڑ دینا بہتر ہے، کیونکہ عام سننے والے کو تو ترانے میں کہیں بھی کوئی ایسا لفظ سنائی نہیں دیتا جو سنسکرت کلاس روم سے نکلا ہوا لگے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ترانے میں عربی، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں تو کیا یہ اُردو ہوا یا زبانوں کا ہاٹ پاٹ؟ کچھ لوگ تو اسے ’’لسانی بریانی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں جس میں ہر زبان کا مصالحہ موجود ہے، لیکن بریانی کی طرح یہ ترانہ بھی دل کو بھاتا ہے، اور شاید اِسی لیے عشروں سے بغیر کسی دھن کے اختلاف کے بجتا چلا آ رہا ہے۔

بیگ صاحب کی تحقیق کی گہرائی کا یہ عالم ہے کہ اُنہوں نے ’’پاک‘‘ جیسے سادہ لفظ کا سراغ 1564ء میں حسن شوقی کے دیوان میں لگایا، اب اگر وہ دیوان نہ ملتا تو شاید کچھ لوگ ’’پاک‘‘ کو ’’صاف ستھرا‘‘ کہہ کر ترانے سے نکالنے کا مشورہ دے دیتے، خوش قسمتی سے ’’شاد‘‘ بھی سولہویں صدی سے دستیاب ہے، اِس لیے طے پایا کہ ترانہ خوشی خوشی لکھا گیا تھا، غصے میں نہیں۔

بیگ صاحب نے اپنی تحقیق کو فلمی حوالوں تک بھی پہنچایا اور بتایا کہ ’’پاک دامن‘‘، ’’منزل‘‘، ’’نشان‘‘ جیسے الفاظ ہندی فلموں کے عنوانات میں بھی موجود ہیں، گویا فلم انڈسٹری نے بھی ترانے کی تائید میں کردار ادا کیا ہے، اور اگر کوئی شخص ’’منزل‘‘ فلم دیکھ چکا ہو تو وہ ترانے کو اُردو ماننے پر مجبور ہو جائے گا چاہے فلم کا ہیرو اپنی اصل منزل تک نہ پہنچا ہو۔

کچھ حلقے اسے فارسی ترانہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اِس میں ’’سرزمین‘‘، ’’نشان‘‘ اور ’’کاوش‘‘ جیسے الفاظ ہیں، لیکن اگر زبانوں کی شناخت صرف الفاظ کی بنیاد پر ہو تو پھر ’’ٹی وی’’،’’کمپیوٹر‘‘، ’’فریج‘‘ اور ’’پیزا‘‘ جیسے الفاظ کو بھی اُردو لغت سے نکال دینا چاہیے، اور پھر ’’اوئے‘‘ اور’’چل ہٹ‘‘ کو قومی زبان تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ یہی الفاظ ہر پاکستانی کی روزمرہ گفتگومیں بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔

ترانے پر اعتراض کرنے والوں کی خواہش شاید یہ ہے کہ ایک نیا ترانہ لکھا جائے جو مکمل طور پر مقامی ہو، جس میں ’’ٹریفک جام‘‘، ’’لوڈشیڈنگ‘‘، ’’سیلز ٹیکس‘‘ اور ’’وی لاگ‘‘ جیسے الفاظ شامل ہوں تاکہ ہر شہری کو ترانے میں اپنی جھلک نظر آئے، مگر بیگ صاحب نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ خواب بھی تحقیق کی میز پر دفن کر دیا۔

اُنہوں نے ثابت کر دیا کہ قومی ترانہ اُردو ہی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ وہ اُردو ہے جو در و دیوار سے بھی زیادہ تہذیب یافتہ ہے، جس میں عربی کی روانی، فارسی کی نرمی اور اُردو کی جامعیت تینوں یکجا ہو گئی ہیں، بالکل ہماری سیاست کی طرح جس میں ہر جماعت کا تھوڑا تھوڑا حصہ ہوتا ہے اور نتیجہ ہمیشہ ’’ملی جلی حکومت‘‘ کی صورت نکلتا ہے۔

آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ قومی ترانہ اُردو میں ہے، دِل میں ہے، دماغ میں ہے، اور بحث کرنے والے صرف اس وجہ سے اُلجھن میں ہیں کہ اُن کے ذہن میں زبان سے زیادہ لسانی شناخت کی سیاست گھس چکی ہے، جس کا واحد علاج بیگ صاحب کی کتاب ہے، ورنہ اگلی بار شاید کوئی یہ بھی کہہ دے کہ قومی ترانہ اصل میں گوگل ٹرانسلیٹ کا شاہکار ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.