قارئین کرام! یہ سوال ہر سنجیدہ شہری کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر دنیا کے کس ملک میں یہ ممکن ہے کہ کوئی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ خود ہی انٹرنیٹ سروس بند کر دے اور پھر بھی صارفین سے پورے مہینے کا بل وصول کرے؟ کیا کوئی مہذب ریاست ایسی مثال دیتی ہے جہاں آئین، قانون اور جمہوریت کے ہوتے ہوئے شہریوں سے وہ بل لیا جائے جو بنتا ہی نہیں؟ یہ طرزِ عمل کسی بھی معقول نظام میں دھوکے اور استحصال کے مترادف ہے۔
سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) ماضی میں ایک ایسا ادارہ رہا ہے جس نے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کمیونیکیشن کی سہولتیں پہنچا کر عوامی اعتماد حاصل کیا۔ مگر حالیہ بلنگ پالیسی نے اس اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ اگر کوئی کنکشن منقطع ہو جائے تو بھی ہر مہینے کا مکمل بل بنتا رہتا ہے، گویا وہ مسلسل سروس استعمال کرتے رہے ہوں۔ یہ اصول نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا ہے۔
اس پر مزید ستم یہ ہے کہ بلنگ کے لیے ایسے افراد کو ذمہ داری دی گئی ہے جو صارفین کے گھروں تک جا کر بار بار دباؤ ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین کو بھی ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے کہ بل ادا نہ کرنے پر ”اسٹیٹ آئے گا، جرمانہ ہوگا یا گرفتاری ہوگی“۔ اس رویے نے شہریوں میں اشتعال اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ادارے کے افسران خود یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ”یہ اوپر والوں کا بنایا ہوا نظام ہے“۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوامی غصہ براہِ راست ادارے کے خلاف بڑھ رہا ہے اور ایک ایسا ”وردی مخالف بیانیہ“ پروان چڑھ رہا ہے جو کسی طور بھی ریاست یا قومی اداروں کے مفاد میں نہیں۔
دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اصول بالکل واضح ہے: No service, no charge۔ اگر سروس فراہم نہیں ہوتی تو بل بھی نہیں بنتا۔ یورپ اور امریکہ میں کمپنیاں سروس معطل ہونے پر بل روک دیتی ہیں، بلکہ بعض اوقات صارف کو ڈسکاؤنٹ یا کریڈٹ بھی دیتی ہیں۔ یہی اصول مشرق وسطیٰ تک میں لاگو ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کیوں اس عالمی معیار سے محروم رکھے جا رہے ہیں؟
سول سوسائٹی محض تنقید پر اکتفا نہیں کر رہی بلکہ اصلاحِ احوال کا بارہا مطالبہ کر رہی ہے۔ وارننگ دی گئی ہے کہ اگر اس غیر منصفانہ بلنگ پالیسی کو فوری طور پر درست نہ کیا گیا تو عوام عدالتی چارہ جوئی اور اجتماعی احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایس سی او کو یہ سمجھنا چاہیے کہ نصف صدی کی خدمات پر فخر اپنی جگہ مگر ایک متنازعہ پالیسی لمحوں میں ادارے کی ساکھ کو ختم کر سکتی ہے۔ کسی بھی سروس فراہم کرنے والے ادارے کی اصل طاقت صارفین کا اعتماد ہوتا ہے، اور اگر یہی ٹوٹ گیا تو باقی سب کچھ محض تاریخ کا حصہ رہ جائے گا۔