اللہ جل شانہ نے قرآنِ پاک کی سورۃ الانفال کی آیہ مبارکہ 60 میں ہمارے لئے اصولِ زندگی ارشاد فرمائے ہیں۔
وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْـخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْ لَا تَعْلَمُوْنَـهُـمْ ۚ اللهُ يَعْلَمُهُـمْ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُـمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o
اور جہاں تک تم سے ہو سکے ان کے لئے (فوجی) قوت اور پلے ہوئے گھوڑوں (سامانِ جنگ) سے تیار رہو کہ جو اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اس سے ان پر رعب جمائے رکھو ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تم پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کو ئ زیادتی نہ ہو گی۔
ہمارے مسائل بے شمار ہیں جن میں سے بہت سے مسائل کی بنیاد ہمارا اختلافِ رائے اور اس کا طریقۂ اظہار ہے۔ ایسا خوبصورت ملک ِ خداداد جس میں ہر قسم کے موسم، ہر فصل، ہر خطۂ زمین، ہر قسم کے معدنیات اور پھر ذہانت کا بے بہا خزانہ بھی موجود ہے فقط راہ کے تعین کا فقدان روبہ ترقی ہونے میں حائل ہے۔
اللہ کریم نے بنی نوعِ انسان کو ایک وقار اور مقام عطا فرما رکھا ہے چہ جائیکہ ایک انسان نورِ ایمان سے بھی سرفراز ہو۔ میری گزارش ہے کہ آراء کے اظہار کو حدود و قیود میں رکھا جائے اور باہمی اختلافات کو بھُلا کر بحیثیت قوم کے سوچا جائے کیونکہ دینِ اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ مسلمان کی سوچ کبھی بھی فقط اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اجتماعی بنیاد پر سوچتا ہے۔ وطنِ عزیز کے ہر ادارے کو دیکھ لیں خواہ وہ عدلیہ ہو، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہو، پارلیمنٹ ہو، وہاں کون کام کر رہا ہے؟ کون ہے وہاں؟ ہم ہیں۔ شہداء اور غازی کون ہیں؟ ہمارے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں جو وطنِ عزیز کی ناموس پر جانیں لٹا رہے ہیں۔ کون ہیں؟ ہم ہیں۔ ہم میں سے ہی کسی کی بہو کا سہاگ ہے، کسی بہن کا بھائی ہے، کسی ماں کا بیٹا ہے۔ بحیثیت عوام بھی، ہم ہیں۔ بحیثیت ادارے بھی ہم ہی ہیں۔ ضرورت محض اپنی کوتاہیوں پہ نظر رکھنے کی ہے۔ سورۃ النساء کی آیہ مبارکہ 59 میں اللہ کریم نے واضح ارشاد فرمایا ہے
يٰآ يُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا o
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبرؐ کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے اہل حکومت ہیں۔ پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اسے اللہ اور اس کے پیغمبر کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔
ایک طرف اگر حکمران کی اطاعت ضروری ہے تو اس سے اختلاف کا حق بھی حاصل ہے۔ اگر محسوس ہو کہ حکمران غلطی پہ ہے تو اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہو تو یہاں بھی اللہ کی رضا مقدم ہو۔ اس اختلاف کا حل بھی اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے حکم کے مطابق تلاش کرنا چاہیے۔
معزز قارئین کرام! تضادات اس وقت بڑھتے ہیں جب ہم اپنی آراء کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مَیں دعا گو ہوں کہ اللہ کریم ہمیں بحیثیت مسلمان اس بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ وطنِ عزیز ہمارا ہے جس کے لئے ہمارے اجداد نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔ 1947ء میں یہ ملک وجود میں آیا ہے جس کے لیے 1857ء سے لوگ قربانیاں دیتے آ رہے تھے۔ اس وطنِ عزیز کے نام پر کتنے لوگ جان جانِ آفرین کے سپرد کر کے دفن ہوئے، یہ شمار فقط وہ جانتا ہے جو اس کا صلہ دینے والا ہے پھر بقائے وطن کے لئے 1965ء کی لڑائی پر غور کیجیے۔ وہ ہمارے ہی بیٹے تھے جو اپنے سینوں پہ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے کہ ان ٹینکوں کو روکنے کا کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ آپ کسی بھی شہید جسد ِ خاکی کتنے ہی عرصے بعد دیکھ لیں، سلامت ہو گا۔ یہ ان پہ انعامِ باری ہے۔
یہ وطن، انعامِ باری تعالی ہے جس کے شکر ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہے، اس کی نسلوں کے کردار کی تعمیر و تشکیل۔ ہمیں اپنے بچوں کو دین و دنیا، دونوں کے علوم سے بہرہ مند کرنا ہے۔ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹ کر صراطِ مستقیم پہ چلانا ہے۔ اتباعِ رسالت ﷺ پہ گامزن کرنا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹنا ہے۔
معزز قارئین کرام! ہر شعبہ زندگی کو درست کرنے کے لئے نفاذ قانون کا اطلاق لازم ہے۔ جب کوئی معاملہ پیش آئے، قانون وہ بنیادی شئے جو چیزوں میں استحکام لاتا ہے۔ ہمارے پاس 1973ء کا آئین ہے جس پہ نہ صرف قومی سطح پہ بلکہ مذہبی جماعتوں کا کثیر اتفاق ہے۔ اگر اسی آئین کو کلی طور پر نافذ کر دیا جائے تو ہمارے 80% سے زائد مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم اپنی ضرورت کے تحت اس میں ترمیم کرتے رہتے ہیں۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ذاتی ضروریات کو قومی ضروریات پہ فوقیت دی جائے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود غریب آدمی دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہے۔ سستا بیج، سستی کھاد ہی نہیں ایک شفاف نظام کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ نظام اور اس کا عادلانہ نفاذ زرعی پیداوار کو فروغ بھی دے گا، اشیائے خورد و نوش کی سمگلنگ کا سد ِ باب کرے گا۔ شدتِ مزاج کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا بلکہ اس کا نتیجہ اکثر ندامت کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ملک ہمارا ہے، قوم ہماری ہے، ادارے ہمارے ہیں۔ ضرورت ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو ادائیگی فرض کے احساس کی۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے حصے کا کردار کرنے کی توفیق ارزاں عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہمیں باہمی اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے۔ یہ خطۂ ارضِ وطن، مدینہ منورہ کے بعد، دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ معرضِ وجود میں آئ۔ اسے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ انشآء اللہ۔ خوش بخت وہ ہو گا جو اپنے خون سے اس مٹی کو سینچے گا۔