The news is by your side.

فلسطین اور مسلمان دنیا

تحریر: عرباض جدون

1

اسرائیل کا فلسطین پر حملہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1948 سے اب تک یہ فلسطین پر قبضے کے خواہشمند ہیں۔ آج دنیا کے کئی ممالک — جن میں آسٹریلیا، برطانیہ جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں — یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو فلسطین پہلے سے ایک آزاد ریاست ہے، اسے آزاد تسلیم کرنے کا آخر کیا مطلب ہے؟

1948 میں برطانوی استعمار کے خاتمے اور اقوامِ متحدہ کے تقسیمِ فلسطین منصوبے کے بعد، یہودیوں کو فلسطینی سرزمین کا ایک بڑا حصہ دے دیا گیا۔ اسی دوران اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، اور لاکھوں فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزین بننے پر مجبور ہو گئے۔ وہ کس طرح ایک آزاد ریاست کو ایسے ظاہر کر سکتے ہیں جیسے وہ پہلے کبھی وجود میں ہی نہ تھی؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آپ فلسطین کو تسلیم کرنے کی بجائے جنگ بندی کیوں نہیں کرواتے؟ جو ممالک امن کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں، انہیں یوکرین میں ہونے والے مظالم تو نظر آتے ہیں، لیکن فلسطینیوں پر ڈھایا جانے والا ظلم اور جبر نظر نہیں آتا۔

آج تک فلسطین میں جنگ بندی کے لیے کسی ملک نے سنجیدہ اور عملی آواز نہیں اٹھائی۔ جس نے اٹھائی بھی، وہ صرف بیانات تک محدود رہی۔ کیا کسی ملک نے اسرائیل سے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی نہ کی تو عالمی طاقتوں کا استعمال کریں گے؟ نہیں — ایسا کسی نے نہیں کیا۔ سب کو صرف اپنی شبیہ بنانی ہے اور دنیا کو دکھانا ہے کہ دیکھو، ہم مظلوموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

یہی ممالک جو فلسطین پر صرف باتوں میں سرگرم ہیں، یوکرین کے لیے روس پر پابندیاں لگا چکے ہیں، حملے کی دھمکیاں دے چکے ہیں، اور عالمی طاقتوں کو متحرک کر چکے ہیں۔ لیکن فلسطین، خاص طور پر غزہ کے معاملے پر، یہ سب خاموش تماشائی ہیں۔ کئی ممالک فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہیں، لیکن تسلیم کوئی نہیں کرتا، جیسے سب غزہ پر قبضہ مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہوں۔ اور دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ ہم نے تو فلسطین کے حق میں آواز اٹھا دی ہے۔

وہ کیا کچھ نہ کرنے والے تھے
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
— جون ایلیا

پوری دنیا اگر خاموش رہتی تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا، جتنا عالمِ اسلام کی خاموشی سے ہوتا ہے۔ اگر مسلمان ممالک اپنے بھائیوں کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے، تو خود کو آزاد کہنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کوئی اور اسلامی ملک نشانہ نہیں بنے گا؟ فلسطینیوں کی نگاہ دنیا پر نہیں بلکہ مسلمان ممالک پر ہے — جو باقی دنیا کی طرح صرف بیانات میں یکجہتی دکھاتے ہیں۔

ہٹلر نے جب یہودیوں کی نسل کشی کی تو پوری دنیا اس کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ آج اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو دنیا کیوں خاموش ہے؟ کیا ہٹلر کا کیا ہوا ظلم درست تھا؟ ہرگز نہیں۔ تو کیا غزہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک وہی نہیں جو ہٹلر نے کیا تھا؟ کیا مسلمان کو زندہ رہنے اور آزادی کا حق نہیں؟ اور سب سے بڑی بات — کیا آج کا مسلمان اتنا بزدل ہو چکا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا سکتا؟ ماضی میں دنیا پر حکومت کرنے والے مسلمان آج ظلم اور جبر کے خلاف بولنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود؟
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
— علامہ اقبال

اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوئے، دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکی۔ مگر ہم نے اپنے آپ کو تقسیم کر لیا، یکجہتی چھوڑ کر ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ آج امتِ مسلمہ پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں تو کیا اس میں صرف ظالم قصوروار ہے یا ہم بھی شریکِ جرم ہیں؟ اگر ہم متحد ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے خلاف کھڑی نہیں ہو سکتی۔

1 Comment
  1. Adil Ayaz Khan says

    Well said

Leave A Reply

Your email address will not be published.