The news is by your side.

آپریشن عزم استحکام کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے،آئی ایس پی آر

0

پھلڑہ (نمائندہ شمال) آپریشن عزم استحکام کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آرسیاسی مافیا چاہتا ہے کہ عزم استحکام کو متنازع بنایا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آرہمارا مسئلہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی سیاست کی نذر کردیتے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر۔پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں فوج کے خلاف منظم پراپیگنڈے اورجھوٹی خبروں میں اضافہ ہوا ہے، بڑھتے جھوٹ اور پروپیگینڈے کے پیش نظر ہم نے تواتر سے پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی)میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ ہے کہ انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نذر کردیتے ہیں، بڑھتے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے پیش نظر ہم تواتر سے پریس کانفرنس کریں گے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد بعض اہم امور پر افواج کاموقف واضح کرنا ہے،جیسا کہ علم میں ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈا، جھوٹ، غلط معلومات کے پھیلا اور ان سے منسوب من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس لیے ان معاملات پر بات کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر ٹیررارزم کی مد میں اس سال سیکیورٹی فورسز نے مجموعی طور پر اب تک 22 ہزار 409 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے،اس دوران 398 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا،دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ 112 سے زائد آپریشن افواج پاکستان، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، اس کے دوران انتہائی مطلوب 31 دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں،رواں سال 137 افسر اورجوانوں نے ان آپریشن میں جام شہادت نوش کیا،پوری قوم ان بہداروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے قیمیتی جانیں ملک کی امن و سلامتی پر قربان کی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بڑھتے ہوئے جھوٹ اور پراپیگنڈے کے دوران یہ ضروری ہے کہ ایسی پریس کانفرنس بقاعدگی سے منعقد کریں تاکہ نا صرف کسی بھی صورتحال پر مقف کی وضاحت ہوسکے بلکہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی افواہوں اورجھوٹ کا بر وقت سدباب کیا جاسکے۔پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آپریشن عزم استحکام سے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر بہت زیادہ کنفویژن ہے کہ عزم استحکام کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نظر کردیتے ہیں،عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے، میں کہوں گا کہ عزم استحکام ایک ہمہ گیر اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم مہم ہے، یہ ملٹری آپریشن نہیں ہے، عزم استحکام کے اوپر 22 جون کو نیشنل ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے وزیر اعظم کی زیر صدارت، اس میں وزیر دفاع، نائب وزیر، وزیر انفارمیشن اور متعلقہ وزرا موجود تھے، سارے صوبے کے وزیر اعلی بھی موجود تھے، چیف سیکریٹریز بھی تھے،متعلقہ سوسز چیف بھی موجود تھے، آرمی چیف بھی تھے اس کے بعد سارے متعلقہ افسران بھی تھے، اس اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا اور یہ کنفیوژن شروع ہوگئی۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ ایپکس کمیٹی کے فورم نے کانٹر ٹیررازم مہم پر تفصیلی جائزہ لیا اور نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومینز کو دیکھااور انہوں نے اس کے نفاذ میں خامیوں کی نشاندہی کی اوراس بات پر زور دیا کہ ایک تفصیلی کانٹر ٹیررازم اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے، اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک مزید متحرک کانٹر ٹیررازم مہم کی منظوری دی، تو یہ ایک مہم ہے، اور اس مہم کع ہم آپریشن عزم استحکام سے لانچ کریں گے اس میں اتفاق رائے ہوگی، اس میں کوشش کی جائے گی کہ جو کوششیں چل رہی ہیں اس کو موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے گا، ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے گا اورفورم نے اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی پاکستان کی جنگ ہے اور یہ ہماری سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فورم نے کہا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس میں کون سے آپریشن کی بات ہورہی ہے؟ اور یہی ہے اس ڈاکومنٹ میں، یہ سب کے پاس ہی ہے، اس کے بعد ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن ہورہا ہے، لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں،جب یہ بیانیہ بنا تو صرف دو دن بعد 24 جون کو وزیر اعظم آفس ایک اور اعلامیہ جاری کرتا ہے اس میں کہا گیا عزم استحکام کو غلط سمجھا جارہا اور اس کا راہ نجات، ضرب عضب سے غلط موازنہ کیاجارہا ہے، پہلے نو گو ایریاز تھے جہاں ریاست کی رٹ نہیں تھی تو اس لیے اسے ختم کرنے آپریشن کیا گیا، اس وقت نو گو ایریاز نہیں ہیں، اس لیے کوئی بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن نہیں ہورہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عزم استحکام ملتی ڈومین، ملٹی ایجنسی، ہول آف دی سسٹم، نیشنل وژن ہے پاکستان میں استحکام قائم کرنے کے لیے، یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں، اور اس کا مقصد دہشت گردوں اور کریمنل کے نیکسس کو توڑنا ہے، یہ دو دستاویزات ہیں تحریری لیکن پھر بھی عزم استحکام کو متنازع بنایا جارہا ہے، ایک بہت مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ یہ جو مقاصد ہیں وہ پورے نا ہوں، اب وہ یہ کیوں چاہتے ہیں تو اس کے لیے ریوائزڈ ایکشن پلان دیکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو تمام اسٹیک یولڈرز بیٹھے اور نیشنل ایکشن پلان بنایا 21 نکات کا، اس کے اثرات بھی سب نے دیکھے،آخری حکومت میں وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی میں ریوائزڈ نیشل ایکشن پلان 14 نکات والامنظورکیا،ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو مثالیں دے دیتا ہوں،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا پارٹ ہے نا؟ اس میں اربوں کا بزنس ہو رہا ہے نا؟ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، جب ایک ملک میں، کچھ اضلاع میں، کچھ جگہوں میں یہ نارمل ہو کہ بغیر کاغذ کے گاڑی چل سکتی ہے۔مزید کہا کہ اس کا کوئی پتا نہیں کہ آگے نمبر کیا لگا ہے، اس کے درمیان میں دہشت گرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، بے نامی پراپرٹیز، بے نامی اکاؤنٹس کیا یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر آپ اس کو برداشت کریں گے تو اس کے اندر دہشت گرد بھی آپریٹ کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ جو سرحد ہے، افغانستان کے 6 ملکوں کے ساتھ بارڈر لگتے ہیں، پاکستان کے علاوہ تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین، ایران کے ساتھ بھی اس کی سرحد ہے، جو افغانستان میں ترک، تاجک، ازبک بھی رہتے ہیں، لیکن باقی ملکوں کے ساتھ تو وہ پاسپورٹ کے ساتھ جاتے ہیں، نارمل سرحد ہے، ویزہ سسٹم ہے، تو پھر ہماری سرحد پر کیوں تذکرے یا شناختی کارڈ دکھا کر اندر چلے جائیں، اس کو ایک سافٹ بارڈر رکھا ہے، کیونکہ وہ غیرقانونی اسپیکٹرم کو فیسیلٹیٹ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2023 میں ایل سیز کو کم کیا کیونکہ ڈالرز کی قلت تھی، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک دم سے اربوں ڈالر کے لحاظ سے بڑھ گیا، کیونکہ وہاں جو سامان جاتا ہے، وہ آپ کی مارکیٹوں میں بکتا ہے، بکتا ہے یا نہیں بکتا؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.