مہنگائی،نانبائی اور بے قابوتجاوزات مافیاء کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے بیشتر شہروں ایبٹ آباد اور مانسہرہ،اوگی،شنکیاری، سمیت بالاکوٹ وغیرہ میں ان دنوں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا جس طرح رونا رویا جا رہا ہے اس میں سب سے زیادہ اگر کوئی طبقہ بے قابو ہے تو وہ نانبائی ہیں،جنہیں انتظامیہ کی جانب سے نرخنامے تو جاری کر دیے جاتے ہیں مگر نہ تو پھر ان نرخناموں پر عملدرآمد ممکن بنایا جاتا ہے اور نہ جاری کردہ قواعدو ضوابط کے تحت انہیں روٹی کے وزن کا بھی پابند بنایا جاتا ہے، ماہ رمضان میں اپنی پراگرس پوری کرنے کیلئے محکمہ خوراک اور مقامی انتظامیہ حرکت میں آتی ہے تو کچھ دنوں تک ثمرات بھی سامنے آ جاتے ہیں مگر اس کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور عوام کو ان نانبائیوں کی مرہون منت چھوڑ دیا جاتا ہے،ہوٹلز مالکان کی کمیشن خوری کے عوض کم وزن روٹیاں فروخت کرنے والے یہی تندورچی اتنے بے قابو اور منہ پھٹ ہو چکے ہیں کہ جب کوئی ان سے شکایت کرے تو اسے منہ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے،دوسری جانب اگر صرف مہنگائی ہی کا تذکرہ کیا جائے تو عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ مہنگائی ا ور جرائم کی شرح میں اضافہ یکساں ہوتا ہے، آٹا مزید مہنگا کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ حکومت ملک میں چوری، ڈکیتی جیسے جرائم میں اضافہ کروانا چاہتی ہے، جب عوام میں آٹا خریدنے کی سکت نہ رہی تو پھر اس کے علاوہ اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے یا تو یہ قوم ایوان اقتدار کے مکینوں کی انتڑیاں نکالے گی یا اپنے پڑوسیوں کے گلے کاٹے گی، ایسی کسی بھی صورت حال سے بچاؤ کا واحد راستہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے علاوہ کوئی نہیں،اسی طرح ہزارہ کی خوبصورتی کو بدصورتی میں بدلنے میں جہاں دیگر مسائل نے کردار ادا کیا ہے وہیں ٹی ایم اے کی غفلت لاپروائی اور کرپشن نے بھی ہزارہ کی خوبصورتی کو گہن لگانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور ان سے اٹھنے والی تعفن، غیر قانونی پارکنگ اور تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہوئے اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے،ٹی ایم اے ہزارہ بھر میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برت رہی ہے، جس کی وجہ سے مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں،دوسری طرف ٹی ایم اے میں کرپشن نے اس محکمے کی کارکردگی کو متاثر کر رکھا ہے اور سیاسی آشیرباد، رشوت ستانی اور غیرقانونی ا مور کی انجام دہی کی وجہ سے یہ محکمہ تباہی کی دہانے پر پہنچ چکاہے اور حکومت کو بھی کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، اس کی وجہ ہزارہ میں ٹی ایم اے میں موجود کرپٹ اور نااہل افسران ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی دیگر ملازمین بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، اخبارات کے ذریعے بارہا ان مسائل کی طرف توجہ بھی دلائی گئی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں لاتی، جس کی وجہ سے عوام مسائل کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں، جگہ جگہ تجاوزات مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے مانسہرہ کی تمام سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، مانسہرہ کے بازار ظفر روڈ، شنکیاری روڈ، ایبٹ آباد روڈ ریڑھیوں اور دیگر تجاوزات سے بھرگئے ہیں جس کی وجہ سے اب پیدل چلنابھی دشوار ہوگیا ہے اور ان کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، جس کی وجہ سے مانسہرہ شہر کا حسن ماند پڑ چکاہے، تجاوزات کی وجہ سے دن بھر ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے، انتظامیہ پختہ تجاوزات کو ختم کرنے میں بے بس نظر آتی ہے،اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام نہ ہونے کے سبب سر اٹھا رہا ہے،ہزارہ بھر میں جعلی ادویات کا فروغ ہے اور ڈاکٹروں نے اپنا کاروبار شروع کر رکھا ہے، جس سے غریب عوام کی صحت اور پیسہ دونوں ضائع ہورہے ہیں، پیسے بنانے کی اس دھن میں جہاں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز شامل ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی کلینکس اور ہسپتالوں میں غریب عوام کی چمڑی ادھیڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ان کے ساتھ ہی چند جعلی اور نیم حکیم ڈاکٹروں نے بھی عوام کی صحت سے کھیلنا شروع کر دیا ہے، جگہ جگہ ان کے کلینک کھلے ہیں اور انہوں نے زیادہ تر دور دراز کے علاقوں کے سادہ لوح عوام کو اپنا شکار بنا رکھا ہے۔ ہزارہ میں ان عطائی ڈاکٹروں کی نشاندہی کئی بار اخبارات کے ذریعے بھی کی گئی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں،جس سے ان عناصر کی مزید حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور وہ دھڑلے سے اپنے اس کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں،، سرکاری ہسپتالوں میں کلاس فور کی نوکری کرنیوالوں نے پہاڑی علاقہ جات میں اپنے کلینک کھول لئے ہیں اور ان سے بھی محکمہ صحت کے افسران بھتہ وصول کرتے ہیں،انتظامیہ اور مقامی وصوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور عوامی مشکلات کے ازالہ کیلئے بروقت اور ہنگامی اقدامات اٹھانے ہونگے۔